واشنگٹن ،29مارچ(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)امریکہ میں انٹرنیٹ کی سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو بہت جلد صارفین کی معلومات کسی تیسری پارٹی سے شیئر کرنے کے لیے ان سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ایوان نمائندگان نے صدر اوباما کے زمانے کے ایک قانون کو ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا جس کے تحت انٹرنیٹ کمپنیوں کو صارفین کی ذاتی معلومات کسی تیسری کمپنی کو دینے کے لیے ان سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی۔اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے مقابلہ بڑھے گا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا آن لائن پرائیویسی پر خوفناک اثرات پڑیں گے۔اوباما کے دور کے اس قانون کو ختم کرنے کے لیے بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں ویری زون، اے ٹی اینڈ ٹی اور کوم کاسٹ نے زبردست حمایت کی اور ان کا کہنا ہے کہ گوگل اور فیس بک جیسی کمپنیوں کے مقابلے میں دوسری کمپنیوں سے پرائیویسی کے قانون پر زیادہ سختی برتی جاتی ہے۔
جو قانون صدر ٹرمپ کے آنے سے قبل اکتوبر میں منظور ہوا تھا اسے اس سال کے آخر تک نافذ کیا جانا تھا اور اس کے تحت انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو کسی صارف کے جغرافیائی مقام، مالی معلومات، صحت اور بچوں سے متعلق معلومات، سوشل سکیورٹی نمبر، ویب براؤزنگ کرنے کی تفصیلات وغیرہ صارفین کی اجازت کے بغیر کسی کے ساتھ شیئر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ایف سی سی کے نئے سربراہ اجیت پائی کا کہنا ہے کہ اس قانون کی منسوخی سے آن لائن کی مارکیٹ میں سب کو ایک جیسے مواقعے ملیں گے۔اور یہ بھی صارفین کی مرضی پر تھا کہ آیا وہ اپنا ای میل ایڈریس اور اس جیسی کم حساس معلومات بھی شیئر کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
فیڈرل کمیونیکیشن کمیشن (ایف سی سی) کے نئے سربراہ اجیت پائی کا کہنا ہے کہ اس قانون کی منسوخی سے آن لائن کی مارکیٹ میں سب کو ایک جیسے مواقعے ملیں گے۔انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ گذشتہ سال پسندیدہ کمپنیوں کو ناپسندیدہ کمپنیوں کے مقابلے میں فائدہ پہنچانے کے لیے پالیسیاں ترتیب دی گئی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’کانگریس نے اس کے خلاف ایک قرارداد منظور کی تھی تاکہ اس طریقہ کار کو روکا جا سکے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے آگے ہم یہ چاہتے ہیں کہ امریکی عوام یہ جان لے کہ ایف سی سی فیڈرل ٹریڈ کمیشن کے ساتھ کام کرے گا تاکہ وہ صارفین کی آن لائن پرائیویسی کا مستقل اور جامع فریم ورک کے تحت تحفظ کر سکے۔‘فائٹ فار دا فیوچر مہم کی ڈائریکٹر ایوان گریر کا کہنا ہے کہ ’کانگریس نے آج ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ عوام کے تحفظ اور سکیورٹی کے بجائے کارپوریشنز کی خواہشات کا زیادہ خیال رکھتی ہے جو کہ انھیں فنڈز فراہم کرتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہر طرح کی سیاسی سوچ رکھنے والے اس سے ناراض ہیں اور ہر قانون ساز جو ہماری پرائیویسی چھیننے کے لیے ووٹ دے گا وہ آنے والے انتخابات میں پچھتائے گا۔‘